شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

فرح اقبال

  • غزل


کبھی تم بھیگنے آنا مری آنکھوں کے موسم میں


کبھی تم بھیگنے آنا مری آنکھوں کے موسم میں
بنانا مجھ کو دیوانہ مری آنکھوں کے موسم میں

برستا بھیگتا ہو جب کوئی لمحہ نگاہوں میں
وہیں تم بھی ٹھہر جانا مری آنکھوں کے موسم میں

کئی موسم گزارے ہیں انہوں نے دھوپ چھاؤں کے
نیا موسم کوئی لانا مری آنکھوں کے موسم میں

سنہری دھوپ پھیلی ہو کہیں یادوں کے جنگل میں
تو کرنیں بن کے مسکانا مری آنکھوں کے موسم میں

کبھی دو چار ہو جائیں مری نظریں جو تم سے تو
چھلک جائے گا پیمانہ مری آنکھوں کے موسم میں

مری آنکھوں کے سب موسم ہیں تنہائی سے گھبرائے
نہ تنہا چھوڑ کر جانا مری آنکھوں کے موسم میں

ہیں یوں تو فاصلے کتنے زمانوں کے مکانوں کے
مگر ملتے ہو روزانہ مری آنکھوں کے موسم میں


Leave a comment

+