شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

رئیس نیازی

  • غزل


جو نور دیکھتا ہوں میں جام شراب میں


جو نور دیکھتا ہوں میں جام شراب میں
وہ آفتاب میں ہے نہ وہ ماہتاب میں

اس طرح عزم زہد ہے عہد شباب میں
چلنے کا جیسے قصد کرے کوئی خواب میں

میری نظر سے چھپ کے رہیں وہ حجاب میں
میرے ندیم کیا مہ و انجم ہیں خواب میں

مجھ کو سنائے جاتے ہیں افسانے خلد کے
ڈوبا ہوا ہوں مستئ شعر و شراب میں

آخر طلسم غنچہ و گل ٹوٹ کر رہا
میری نظر سے چھپ نہ سکے وہ حجاب میں

انسان کھا رہا ہے فریب حیات کیوں
کشتی کبھی رواں بھی ہوئی ہے سراب میں

بیگانۂ نظر تھے ہمیں اس کا کیا علاج
شامل ہیں رحمتیں بھی کسی کے عتاب میں

ہر منظر جمیل پہ گو رک گئی نظر
ٹھہرے مگر تمہیں نگہ انتخاب میں

میرا ہر اک نفس ہے پیام رضائے دوست
زاہد پھنسا ہوا ہے عذاب و ثواب میں

ہر منظر جمیل کو ٹھکرا کے اے رئیسؔ
خود سامنے ہوں اپنی نظر کے جواب میں


Leave a comment

+