شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

لیث قریشی

  • غزل


کئی پیام برائے سکون جاں تو ملے


کئی پیام برائے سکون جاں تو ملے
مگر تمام ہوئی اپنی داستاں تو ملے

کوئی تو سمجھے مرے کرب کا لب و لہجہ
یہ آرزو ہے مجھے کوئی ہم زباں تو ملے

کوئی فضا کوئی موسم ہو ہم سے ہو منسوب
بہار اگر نہیں ملتی ہمیں خزاں تو ملے

مقام شکر ہے میرے لئے کہ آخر کار
مرے حریفوں میں کچھ اہل خانداں تو ملے

ہوں غم نصیب تو کیا غم کہ راہ ہستی میں
تلاش حق و صداقت میں ہمرہاں تو ملے

یہی بہت ہے خزاں کو خزاں جو کہتے ہیں
کچھ ایسے پھول ہمیں زیب گلستاں تو ملے

شکستہ پا ہیں تو کیا ہم تو سر کے بل جائیں
مگر یہ بات کوئی میر کارواں تو ملے

حکایت دل درد آشنا سناؤں گا
تری نظر سے مجھے جرأت بیاں تو ملے

یہ زندگی کے بیاباں میں دھوپ کا صحرا
کہاں قیام کروں کوئی سائباں تو ملے

یہ روز و شب بھی ہمارے بدل تو سکتے ہیں
کبھی زمین سے آ کر یہ آسماں تو ملے

رہا ہوئے ہیں مگر لیثؔ یہ رہائی کیا
قفس سے چھوٹنے والوں کو آشیاں تو ملے


Leave a comment

+