شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

اظہار وارثی

  • غزل


شکستہ خوابوں کا آنکھوں سے رابطہ کر لیں


شکستہ خوابوں کا آنکھوں سے رابطہ کر لیں
ہر ایک شب کا تقاضا کہ رت جگا کر لیں

لگائیں بھیڑ گئے زرد و سبز لمحوں کی
اور اس ہجوم میں پھر خود کو لاپتہ کر لیں

وگرنہ جینے نہ دے گا غم حیات کا زہر
کسی کے بھولے ہوئے غم کا پھر نشہ کر لیں

کچھ احتجاج بھی رکھیں شریک ضبط ستم
زباں ہے گنگ تو چہرہ سوالیہ کر لیں

وہ زخم دست طلب ہو کہ ہو گل شاداب
وہ کچھ تو دے گا ہمیں عرض مدعا کر لیں

نظر ہے تیری توجہ کے ہر ترشح پر
پڑے پھوار تو زخموں کو پھر ہرا کر لیں

دکھائی دینے لگا رخ پہ رنگ باطن بھی
بہت قریب ہیں ہم تھوڑا فاصلہ کر لیں


Leave a comment

+