شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

جاوید شاہین

  • غزل


نظارہ عجب اس کے گریباں کی طرف تھا


نظارہ عجب اس کے گریباں کی طرف تھا
ہر آنکھ کا رخ سینۂ عریاں کی طرف تھا

میں دیکھ رہا تھا کہیں جلتی ہوئی شمعیں
اور دھیان مرا دوو پریشاں کی طرف تھا

میں لیٹا رہا گھاس پہ سائے میں بڑی دیر
آگے کا سفر سارا بیاباں کی طرف تھا

دو راستے تھے ایک جگہ راز جہاں میں
اک گھر کی طرف دوسرا زنداں کی طرف تھا

کچھ پڑ سا گیا دیدۂ مشتاق میں اس وقت
جب گرم تماشا کسی میداں کی طرف تھا

تارے کہ اتر آئے تھے اک دشت بلا میں
مہتاب کسی قریۂ ویراں کی طرف تھا

بیٹھا تھا کہیں حسن نمائش گہ غم میں
رجحان ذرا شہرت ارزاں کی طرف تھا

یہ کیسے ہوا کیوں میں نکل آیا سر راہ
جانا تو مجھے کوچۂ جاناں کی طرف تھا

محفل میں وہ کرتا رہا اک چور سے ہشیار
اور اس کا اشارہ مرے مہماں کی طرف تھا

آثار تھے آندھی میں بڑی چپ سی فضا میں
رخ وقت کے دھارے کا بھی طوفاں کی طرف تھا

وہ قافلۂ گل کے گزر جانے کی خبر تھی
اڑتا ہوا جو رنگ گلستاں کی طرف تھا

اک ہاتھ تھا دنیا کا مری جیب پہ شاہیںؔ
جو دوسرا تھا میرے گریباں کی طرف تھا


Leave a comment

+