شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

وفا نقوی

  • غزل


غروب ہوتے ہوئے سورجوں کے پاس رہے


غروب ہوتے ہوئے سورجوں کے پاس رہے
اداس شام کی مانند ہم اداس رہے

کھنڈر سا ایک مکاں تاکتا ہے رستوں کو
نہ جانے آج کہاں اس کے غم شناس رہے

بہار آئی تو سج دھج کے ہو گئے تیار
درخت صرف خزاؤں میں بے لباس رہے

یہ کہہ کے ہو گئے تھوڑے سے بے وفا ہم بھی
ہمیشہ کون محبت میں دیوداس رہے

مرے خیال میں توہین ہے عقیدت کی
سمندروں میں رہوں اور لبوں پہ پیاس رہے


Leave a comment

+