شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ثاقب لکھنوی

  • غزل


آئینۂ عبرت ہے مرا دل بھی جگر بھی


آئینۂ عبرت ہے مرا دل بھی جگر بھی
اک درد کی تصویر ادھر بھی ہے ادھر بھی

کیا تم سے شکایت مجھے قسمت سے گلہ ہے
پھرتا ہے مقدر تو پلٹتی ہے نظر بھی

اس کو بھی نکال اے دل پر داغ کے گلچیں
کانٹا ہے مرے پہلوئے خالی میں جگر بھی

بس نالۂ دل بس مجھے امید نہیں ہے
منہ دیکھنے والوں میں ہے ظالم کے اثر بھی

ملنے سے بھی ان کے نہوی دل کو تسلی
وصلت کی مسرت بھی رہی صبح کا ڈر بھی

تھامے ہیں کلیجا وہ مرے دل کو دکھا کے
اک تیر کی تاثیر ادھر بھی ہے ادھر بھی

ہوش اڑتے ہیں گم گشتگیٔ اہل عدم سے
اس دشت‌‌ سیہ روز میں عنقا ہے خبر بھی

پس کر ترے ہاتھوں کی حنا جب سے ہوا دل
اک خون کا چلو نظر آتا ہے جگر بھی

ٹکڑے تھا کلیجا مرا خود جور فلک سے
پہلو سے گئی چھان کے دل ان کی نظر بھی

تنہائی فرقت میں کوئی پاس نہ ٹھہرا
رخصت ہوا آخر کو دعاؤں سے اثر بھی

ہر خوف سے پہلو کا بچانا نہیں اچھا
اے امن طلب حشر میں کام آئے گا ڈر بھی

کیا زخم دل امید رکھے اس سے کہ جس نے
دیکھا نہ کبھی چاک گریبان سحر بھی

روداد ہے کیا شہر خموشاں کی الٰہی
اس باب میں خاموش ہیں ارباب خبر بھی

تصویر بنا دیجیے مجھ کو کسی صورت
لے جائیے پہلو سے مرا دل بھی جگر بھی

سد حادثۂ دہر کی ٹوٹی نہ اجل سے
جاتی نہیں ان تک مرے مرنے کی خبر بھی

یہ حکم محبت ہے کہ دل اس پہ فدا ہے
ثاقبؔ جسے دیکھا نہ کبھی ایک نظر بھی


Leave a comment

+