شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

حبیب احمد صدیقی

  • غزل


وہ درد عشق جس کو حاصل ایماں بھی کہتے ہیں


وہ درد عشق جس کو حاصل ایماں بھی کہتے ہیں
سیہ بختوں میں اس کو گردش دوراں بھی کہتے ہیں

جو آغوش حیا میں ایک دل آویز نشتر ہے
اسی موج نظر کو گلشن خنداں بھی کہتے ہیں

حجابات نظر جلووں کی بے باکی سے کیا اٹھیں
محبت کی نظر کو دیدۂ حیراں بھی کہتے ہیں

نہ کھلوائیں زباں اچھا یہی ہے حضرت زاہد
کہ اس ترک طلب کو حسرت عصیاں بھی کہتے ہیں

کسی کے واسطے سرمایۂ دنیا و دیں ٹھہریں
وہی نظریں جنہیں غارت گر ایماں بھی کہتے ہیں

جو دل معمورۂ صد حسرت و یاس و تمنا ہے
تعجب ہے اسی کو خانۂ ویراں بھی کہتے ہیں

غلط انداز سی نظریں تبسم بے نیازانہ
تغافل کیشیوں کو دعوت ارماں بھی کہتے ہیں

جہان آب و گل کو جس نے ذوق زندگی بخشا
اسے اے حضرت ناصح دل ناداں بھی کہتے ہیں

ہے جس کے دم سے دنیائے محبت جنت ارماں
اسی جان طرب کو فتنۂ دوراں بھی کہتے ہیں


Leave a comment

+