شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

خالد محمود ذکی

  • غزل


شب کے ہاتھوں گرا اور کہیں رہ گیا


شب کے ہاتھوں گرا اور کہیں رہ گیا
چاند پھر بے فلک بے زمیں رہ گیا

چلتے رہتے تو ملنے کا امکان تھا
جو جہاں رک گیا وہ وہیں رہ گیا

خود کو کھوئے ہوئے کیا کسے ڈھونڈتے
تم کہیں رہ گئے میں کہیں رہ گیا

کون رکھے حساب شب و روز جب
شب کہیں رہ گئی دن کہیں رہ گیا

کھو گیا جو بھی زاد سفر پاس تھا
خواب اوڑھے ہوئے اک یقیں رہ گیا

تم ملے ہی کہاں ملنے جیسے مجھے
میں جہاں تھا وہیں کا وہیں رہ گیا

سب گزرتا گیا سب گزرنے دیا
پھر بھی کیا کیا نہ دل کے قریں رہ گیا

میں اٹھائے ہوئے یہ بدن چل پڑا
دل بھی راضی تھا پھر بھی وہیں رہ گیا

بعد مدت کے اب سوچنا بھی ہے کیا
پاس کیا رہ گیا کیا نہیں رہ گیا


Leave a comment

+