شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

شمؔیم ہاشمی

  • غزل


یاد کا نشتر جو تنہائی نکیلا کر گئی


یاد کا نشتر جو تنہائی نکیلا کر گئی
وقت کے سوکھے ہوۓ زخموں کو گیلا کر گئی

وقت پڑنے پر وفا تیری جو حیلا کر گئی
زندگی کا پیچ و خم کچھ اور ڈھیلا کر گئی

درد کی بھٹّی میں میری تشنگی تپتی رہی
آنچ کی شدّت بدن کا رنگ نیلا کر گئی

دل کے صحرا میں کسی کی یاد کے تلوے جلے
آنکھ کی بارش سلگتی ریت گیلا کر گئی

ان کی آنکھوں سے بہت بچنے کی کوشش کی مگر
بات ہی ایسی تھی جو چہرے کو پیلا کر گئی

یاد ماضی ذہن کے صحرا سے یوں گزری شؔمیم
فکر کے بکھرے ہوئے ذرّوںکو ٹیلا کر گئی

Leave a comment

+