شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

شمؔیم ہاشمی

  • غزل


غم خوار مل گیا تو سنبھلنے لگی ہے شام


غم خوار مل گیا تو سنبھلنے لگی ہے شام
میری رفاقتوں میں بہلنے لگی ہے شام

سورج کو قہر سے یہ چھپی تھی یہیں کہیں
جب ڈھل گیا ہے دن تو ٹہلنے لگی ہے شام

دوشیزۂ شفق کا ہے چہرا حیا سے سرخ
آنچل میں اسکے چھپ کے مچلنے لگی ہے شام

نگلے نہ اسکو قبر کی صورت سیاہ رات
اس غم سے بوند بوند پگھلنے لگی ہے شام

اس کو اداسیوں کے سوا جب نہ کچھ ملا
میرے غریب خانے سے ٹلنے لگی ہے شام

جب شہر دل میں تھی تو بڑی خوش گوار تھی
شہر ہوس میں آئی تو جلنے لگی ہے شام

دیوار و در کی ختم ہوئی اب چہل پہل
خانہ بدوش گھر سے نکلنے لگی ہے شام

کیا جانے اس کا مجھ سے تعلق ہے کیا شؔمیم
کیوں میرے آس پاس ٹہلنے لگی شے شام

مطبوعہ اذکار شمارہ ۱۲، ستمبر ۲۰۰۹، صفہ ۶۵، اردو اکادمی بنگلور

Leave a comment

+