شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

مظؔہر امام

  • مضمون


ناؔدم بلخی: عمدہ شاعر، عمدہ انسان اور عمدہ دوست


“  تذکرہ نسوان ہند اپنے دستخط کے ساتھ مجھے عنایت کی تھی، جو آج بھی میرا قیمتی سرمایہ ہے۔ میں نے سہیل گیا کے ستمبر ۱۹۵۷ء کے شمارے میں اس پر ایک تبصرہ بھی لکھا تھا۔

 

فصیح الدین بلخی  کے زیر سایہ ناؔدم بلخی کے فکر وشعور کی تربیت ہوئی مشق سخن ایسی کی باید و شاید، اور فن عروض پر ایسی دسترس کہ بڑےبڑے ماہر ین عروض کو ان پر رشک آئے ۔ تادمی کو ڈالٹین گنج میں کالج کی ملازمت ملی ۔ انہوں نے پٹنہ کو بادل ناخواستہ  خیر باد کہا اور ایک چھوٹی سی دور افتادہ جگہ کو اپنا مستقل مستقر بنالیا۔ اس سے اہل ڈالٹین گنج  کا فائدہ ضرور ہوا اور ان کے علم و آ گہی سے بہتوں نے فیض اٹھایا لیکن وہ خود اردو کی مین اسٹریم (Main Stream) سے دور ہو گئے ۔ اور میں اپنے ذاتی تجربے کی بناپر کہتا ہوں کہ صلاحیتوں کی جلا اور ان کے اعتراف کے لئے مین اسٹریم میں ہونا ضروری ہے۔ میں نے اپنی زندگی کے ابتدائی ساٹھ سال اردوکی Mainstream اور فوری شہرت بخشنے والے علاقوں سے دور رہ کر گزارے ہیں ۔ اور اس کا خمیازہ ہر سطح پر اٹھانا پڑا ہے۔ نادم بھی ایسے دور دراز علاقے میں جا کر بسے کہ وہ اپنوں سے بھی دور ہو گئے لیکن ان کے عزم وحوصلہ کی داد دینی چاہئے کہ انہوں نے ہر حال میں علم وادب کا چراغ جلائے رکھا۔ نامساعد حالات اورنشر واشاعت کی عدم سہولت کے باوجود انہوں نے تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رکھا اور ان کے اندر کا شاعر ہمیشہ زندہ رہا۔ ان کے کئی شعری مجموعے مقبولیت حاصل کر چکے ہیں اور کئی اشاعت کے منتظر ہیں۔ ناؔدم بلخی نے آزاد غزل کی طرف بھی خصوصی توجہ دی ہے، جس نے ہم دونوں کے ذاتی اور ادبی دونوں رشتوں کو مزید مستحکم کیا ہے۔ فن عروض پر ان کی کتاب” تفہيم العروض استناد کا درجہ رکھتی ہے۔ اس میں ایک باب آزادغزل کے لئے بھی مختص ہے۔ انہوں نے اپنے تنقیدی مضامین کے مجموعے شعاع نقد میں ظؔفر ہاشمی ، رشؔیدا گاز ، شاؔرق جمال ناگپوری اورعتؔیق احمدعتیق  کی آزادغزلوں پر تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔ ناؔدم بلخی کی آزاد غزلوں کا ایک مجموعہ مرتب ہو کر اشاعت کے لئے تیار ہے۔ کاش اس کی اشاعت کی کوئی صورت نکلے، کیوں کہ ناؔدم بلخی کی آزادغزلیں اپنی فنکارانہ صلابت کی وجہ سے خاص توجہ کا تقاضہ کرتی ہیں۔ میں آزاد غزل کی آزادی سے زیادہ اس کی پابندی کا قائل ہوں ، اس لئے ناؔدم بلخی سے ایک آدھ بار میرا اختلاف بھی رہا ہے۔ ہم دونوں اس بات پرمتفق ہیں کہ ہر بحر آزادغزل کے لئے مناسب نہیں، ( آز انظم کے لے کبھی نہیں( مگر خادمین مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن‘‘ میں آزادغزل کہی ہے اور اس کے لئے عروضی جواز بھی پیش کیا ہے۔ ناؔدم بلخی ماہر عروض ہیں، لہذا  ان سے بحث کرنا میرے لئے ممکن نہیں لیکن میرا  اختلاف اپنی جگہ قائم ہے، ادب کے معاملات میں اختلاف رائے نہ ہوتو فکر و تامل کے دروازے کیسے ملیں۔

ناؔدم بلخی ایک نہایت عمدہ شاعر، نہایت عمدہ انسان اور نہایت عمدہ دوست ہیں ۔ ادبی اور عروضی معاملات میں اپنے بعض شکوک رفع کرنے کے لئے میں نے اکثر ان سے رجوع کیا ہے۔

">

ناؔدم  بلخی میرے ہم عصر اور ہم عمر ہیں ۔ ہم دونوں نے لگ بھگ ایک ہی زمانے میں لکھنے پڑھنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ انہیں ایک نہایت معزز علمی خاندان ملا ۔ ان کے والد جناب فصیح الدین  بلخی کے علم فضل کے بارے میں دورائیں نہیں ہوسکتیں ۔ وہ ایک اعلی در جے کے محقق ہونے کے علاو علم عروض کے نبض شناس بھی تھے۔ ان سے مجھے صرف ایک بارغالبا  ۱۹۵۷ء میں پٹنہ سٹی میں ان کے دولت کدے پر شرف نیاز حاصل ہوا ہے۔ ان کے تبحر علمی کانقش اب بھی قائم ہے۔ انہوں نے اپنی مشہور اور وقیع کتاب  تذکرہ نسوان ہند اپنے دستخط کے ساتھ مجھے عنایت کی تھی، جو آج بھی میرا قیمتی سرمایہ ہے۔ میں نے سہیل گیا کے ستمبر ۱۹۵۷ء کے شمارے میں اس پر ایک تبصرہ بھی لکھا تھا۔

فصیح الدین بلخی  کے زیر سایہ ناؔدم بلخی کے فکر وشعور کی تربیت ہوئی مشق سخن ایسی کی باید و شاید، اور فن عروض پر ایسی دسترس کہ بڑےبڑے ماہر ین عروض کو ان پر رشک آئے ۔ تادمی کو ڈالٹین گنج میں کالج کی ملازمت ملی ۔ انہوں نے پٹنہ کو بادل ناخواستہ  خیر باد کہا اور ایک چھوٹی سی دور افتادہ جگہ کو اپنا مستقل مستقر بنالیا۔ اس سے اہل ڈالٹین گنج  کا فائدہ ضرور ہوا اور ان کے علم و آ گہی سے بہتوں نے فیض اٹھایا لیکن وہ خود اردو کی مین اسٹریم (Main Stream) سے دور ہو گئے ۔ اور میں اپنے ذاتی تجربے کی بناپر کہتا ہوں کہ صلاحیتوں کی جلا اور ان کے اعتراف کے لئے مین اسٹریم میں ہونا ضروری ہے۔ میں نے اپنی زندگی کے ابتدائی ساٹھ سال اردوکی Mainstream اور فوری شہرت بخشنے والے علاقوں سے دور رہ کر گزارے ہیں ۔ اور اس کا خمیازہ ہر سطح پر اٹھانا پڑا ہے۔ نادم بھی ایسے دور دراز علاقے میں جا کر بسے کہ وہ اپنوں سے بھی دور ہو گئے لیکن ان کے عزم وحوصلہ کی داد دینی چاہئے کہ انہوں نے ہر حال میں علم وادب کا چراغ جلائے رکھا۔ نامساعد حالات اورنشر واشاعت کی عدم سہولت کے باوجود انہوں نے تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رکھا اور ان کے اندر کا شاعر ہمیشہ زندہ رہا۔ ان کے کئی شعری مجموعے مقبولیت حاصل کر چکے ہیں اور کئی اشاعت کے منتظر ہیں۔ ناؔدم بلخی نے آزاد غزل کی طرف بھی خصوصی توجہ دی ہے، جس نے ہم دونوں کے ذاتی اور ادبی دونوں رشتوں کو مزید مستحکم کیا ہے۔ فن عروض پر ان کی کتاب” تفہيم العروض استناد کا درجہ رکھتی ہے۔ اس میں ایک باب آزادغزل کے لئے بھی مختص ہے۔ انہوں نے اپنے تنقیدی مضامین کے مجموعے شعاع نقد میں ظؔفر ہاشمی ، رشؔیدا گاز ، شاؔرق جمال ناگپوری اورعتؔیق احمدعتیق  کی آزادغزلوں پر تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔ ناؔدم بلخی کی آزاد غزلوں کا ایک مجموعہ مرتب ہو کر اشاعت کے لئے تیار ہے۔ کاش اس کی اشاعت کی کوئی صورت نکلے، کیوں کہ ناؔدم بلخی کی آزادغزلیں اپنی فنکارانہ صلابت کی وجہ سے خاص توجہ کا تقاضہ کرتی ہیں۔ میں آزاد غزل کی آزادی سے زیادہ اس کی پابندی کا قائل ہوں ، اس لئے ناؔدم بلخی سے ایک آدھ بار میرا اختلاف بھی رہا ہے۔ ہم دونوں اس بات پرمتفق ہیں کہ ہر بحر آزادغزل کے لئے مناسب نہیں، ( آز انظم کے لے کبھی نہیں( مگر خادمین مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن‘‘ میں آزادغزل کہی ہے اور اس کے لئے عروضی جواز بھی پیش کیا ہے۔ ناؔدم بلخی ماہر عروض ہیں، لہذا  ان سے بحث کرنا میرے لئے ممکن نہیں لیکن میرا  اختلاف اپنی جگہ قائم ہے، ادب کے معاملات میں اختلاف رائے نہ ہوتو فکر و تامل کے دروازے کیسے ملیں۔

ناؔدم بلخی ایک نہایت عمدہ شاعر، نہایت عمدہ انسان اور نہایت عمدہ دوست ہیں ۔ ادبی اور عروضی معاملات میں اپنے بعض شکوک رفع کرنے کے لئے میں نے اکثر ان سے رجوع کیا ہے۔

ذکر ناؔدم بلخی، ص ۴۹

Leave a comment

+