شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

محمد خلیق صدیقی

  • نظم


دیار شوق میرا  دیار شوق میرا


دیار شوق میرا  دیار شوق میرا
شہر آرزو میرا  شہر آرزو میرا

ہوئے تھے آکے یہیں خیمہ زن وہ دیوانے
 اٹھے تھے سن کے جو آواز رہبران وطن
 یہیں سے شوق کی بے ربطیوں کو ربط ملا  
اسی نے ہوش کو بخشا جنوں کا پیراہن
 یہیں سے لالہ صحرا کو یہ سراغ ملا
 کہ دل کے داغ کو کس طرح رکھتے ہیں روشن

دیار شوق میرا  شہر آرزو میرا

یہ اہل شوق کی بستی ہی سر پھروں کا دیار
 یہاں کی صبح نرالی، یہاں کی شام نئی
یہاں کی رسم ورہ مے کشی جدا سب سے

یہاں کے جام نئے، طرح رقص جام نئی
یہاں پر تشنہ لبی مے کشی کا حاصل ہے
یہ بزم دل ہے یہاں کی صلائے عام نئی

دیار شوق میرا  شہر آرزو میرا

یہاں پر شمع ہدایت ہے صرف اپنا ضمیر
یہاں پر قبلہ ایمان کعبہ دل ہے
 سفر ہے دین یہاں کفر ہے قیام یہاں
 یہاں پر راہ روی خود حصول منزل ہے
 شناوری کا تقاضہ ہے نو بہ نو طوفاں
کنار موج میں آسودگی ساحل ہے

دیار شوق میرا شہر آرزو میرا
 

Source: https://jmi.ac.in/hn/aboutjamia/profile/jamia-tarana/english-19

Leave a comment

+