دل ایوبی
- غزل
- سارے چمن کو دشت میں تبدیل کر گئے
- پھر مرحلۂ خواب بہاراں سے گزر جا
- ڈھنگ جینے کا نہ مرنے کی ادا مانگی تھی
- رہ گیا خواب دل آرام ادھورا کس کا
- دل پر رکھو نگاہ جگر پر نظر کرو
- جاتے ہوئے نگاہ ادھر کر کے دیکھ لو
- انجم و مہر و گل و برگ و صبا کچھ بھی نہیں
- کتنے ہوئے ہیں خون یہاں اک اصول کے
- سارے نقوش جس پہ ترے آشیاں کے ہیں
- دل اکیلا ہی نہیں رقص میں جاں رقص میں ہے