وفا نقوی
- غزل
- تودۂ خاک بدن آب رواں خوب ہوا
- کہیں اندھیرے کہیں روشنی سے ڈرتے ہوئے
- میں اپنی ذات کی تفسیر کرنے والا کون
- جو تیز رو تھے تھی پیروں میں جن کے جان بہت
- سمندروں سے کبھی دشت سے گزرنے میں
- بہتے ہوئے دریا کے کناروں کی طرح تھا
- سفر آسان ہے لیکن اسے دشوار کرتے ہیں
- یہ آرزو ہے رات کا منظر دکھائی دے
- یہ ٹھیک ہے وہ ہم کو میسر نہیں ہوا
- موسم ہو کوئی یاد کے خیمے نہیں اٹھتے