تنویر دہلوی
- غزل
- نکتہ چینی ہے اور آراستن دامن ہے
- دل پریشاں ہی رہا دیر تلک گو بیٹھے
- توڑنے گل کو جو وہ شوخ طرحدار جھکا
- وہ سر شام گئے ہجر کی ہے رات شروع
- دوست سے خواہ وہ عدو سے ملے
- نہ توڑ شیشوں کو او گل بدن تڑاق پڑاق
- ہیں شام ہی سے رنج و قلق جان پر اب تو
- سر کاکل کو نہ او شوخ طرحدار تراش
- وہ کہہ تو گئے ہیں کہ ہم آویں گے سحر تک
- برق بیتاب ہے تم رخ کی چمک تو دیکھو