افتخار نسیم
- غزل
- شام سے تنہا کھڑا ہوں یاس کا پیکر ہوں میں
- سزا ہی دی ہے دعاؤں میں بھی اثر دے کر
- جلا وطن ہوں مرا گھر پکارتا ہے مجھے
- مشعل امید تھامو رہ نما جیسا بھی ہے
- مرے نقوش ترے ذہن سے مٹا دے گا
- ہے جستجو اگر اس کو ادھر بھی آئے گا
- خود کو ہجوم دہر میں کھونا پڑا مجھے
- اس طرح سوئی ہیں آنکھیں جاگتے سپنوں کے ساتھ
- ابھی تو دل میں ہے جو کچھ بیان کرنا ہے
- ہاتھ لہراتا رہا وہ بیٹھ کر کھڑکی کے ساتھ