شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

عرفی آفاقی

  • غزل


وہ دھیان کی راہوں میں جہاں ہم کو ملے گا


وہ دھیان کی راہوں میں جہاں ہم کو ملے گا
بس ایک چھلاوے سا کوئی دم کو ملے گا

انجانی زمینوں سے مجھے دے گا صدا وہ
نیرنگ نوا شوق کی سرگم کو ملے گا

میں اجنبی ہو جاؤں گا خود اپنی نظر میں
جس دم وہ مرے دیدۂ پر نم کو ملے گا

جو نقش کہ ارژنگ زمانہ میں نہیں ہے
اس دل کے دھڑکتے ہوئے البم کو ملے گا

رت وصل کی آئے گی چلی جائے گی لیکن
کچھ رنگ تو یوں ہجر کے موسم کو ملے گا

یہ دل کہ ہے ٹھکرایا ہوا سارے جہاں کا
گھر ایک یہی ہے جو ترے غم کو ملے گا

پتھر ہے تو ٹھوکر میں رہے پائے طلب کی
دل ہے تو اسی طرۂ پر خم کو ملے گا

گر شیشۂ مے ہے تو ہو اوروں کو مبارک
ہے جام جہاں بیں تو فقط جم کو ملے گا

لہراتے رہیں گے چمنستاں میں شرارے
خار و خس و خاشاک ہی عالم کو ملے گا

معلوم ہے عرفیؔ جو ہے قسمت میں ہماری
صحرا ہی کوئی گریۂ شبنم کو ملے گا


Leave a comment

+