شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

راحت حسن

  • غزل


خود سے نباہ شاق ہوا ہے کبھی کبھی


خود سے نباہ شاق ہوا ہے کبھی کبھی
سارا وجود چاق ہوا ہے کبھی کبھی

ڈھونڈا اسے تو خود سے ملاقات ہو گئی
ایسا بھی اتفاق ہوا ہے کبھی کبھی

ہر زاویہ سے عکس کو دیکھا ہے آنکھ نے
ہر بات کا فراق ہوا ہے کبھی کبھی

حائل ہے جو ازل سے مرے حال و قال میں
وہ بھی عیاں نفاق ہوا ہے کبھی کبھی

ہنستے ہیں جب بھی لوگ تو لگتا ہے یوں مجھے
مجھ سے بھی یہ مذاق ہوا ہے کبھی کبھی

خاموشیوں کی طرز سے باور ہوا مجھے
دل بے حسی میں طاق ہوا ہے کبھی کبھی

راحتؔ ہے جس کی ذات سے رشتہ قریب کا
وہ بھی عزیز عاق ہوا ہے کبھی کبھی


Leave a comment

+