شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

قمر جمیل

  • غزل


کس سفر میں ہیں کہ اب تک راستے نادیدہ ہیں


کس سفر میں ہیں کہ اب تک راستے نادیدہ ہیں
آسماں پہ شمعیں روشن ہیں مگر خوابیدہ ہیں

کتنی نم ہے آنسوؤں سے یہ صنم خانے کی خاک
یہ طواف گل کے لمحے کتنے آتش دیدہ ہیں

یہ گلستاں ہے کہ چلتے ہیں تمناؤں کے خواب
یہ ہوا ہے یا بیاباں کے قدم لرزیدہ ہیں

ایک بستی عشق کی آباد ہے دل کے قریب
لیکن اس بستی کے رستے کس قدر پیچیدہ ہیں

آج بھی ہر پھول میں بوئے وفا آوارہ ہے
آج بھی ہر زخم میں تیرے کرم پوشیدہ ہیں

آج گھر کے آئینے میں صبح سے اک شخص ہے
اور کھڑکی میں ستارے شام سے پیچیدہ ہیں

رہ گزر کہتی ہے جاگ اے ماہتاب شام یار
ہم سر بازار چلتے ہیں مگر خوابیدہ ہیں

آئنے میں کس کی آنکھیں دیکھتا ہوں میں جمیلؔ
دو کنول ہیں بیچ پانی میں مگر نم دیدہ ہیں


Leave a comment

+