شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

پرویز رحمانی

  • غزل


ظاہر کو آج ٹالتا ہوں


ظاہر کو آج ٹالتا ہوں
باطن ترا کھنگالتا ہوں

اے آسمان سرخ رو ہو
اپنا لہو اچھالتا ہوں

آئینہ دار تو ہی بن جا
میں خود پہ خاک ڈالتا ہوں

آ دیکھ زندگی کہ کیسے
سائے میں جسم ڈھالتا ہوں

ہوتا ہے سرد جب اندھیرا
سورج ترا نکالتا ہوں

تو اپنے آستیں سے نالاں
اک میں کہ خود کو پالتا ہوں

پرویزؔ کون ہے کہ جس سے
میں بولتا ہوں چالتا ہوں


Leave a comment

+