شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

لکشمی نارائن فارغ

  • غزل


بساط رنگ و بو آتش فشاں معلوم ہوتی ہے


بساط رنگ و بو آتش فشاں معلوم ہوتی ہے
رگ گل میں نہاں برق تپاں معلوم ہوتی ہے

تمنا ہی سے قائم ہے وقار‌ نوجوانی بھی
تمنا گرچہ جنس رائیگاں معلوم ہوتی ہے

کنارہ ہے کوئی اس کا نہ اس کا کوئی ساحل ہے
محبت ایک بحر بیکراں معلوم ہوتی ہے

گذشتہ وارداتوں پر میں جب بھی غور کرتا ہوں
مجھے ہر واردات اک داستاں معلوم ہوتی ہے

وفا کوشی کا جذبہ سرد پڑ جاتا ہے پیری میں
وفا پروردۂ فکر جواں معلوم ہوتی ہے

اثر باقی ابھی تک ہے نگاہوں میں جوانی کا
مجھے ہر ایک شے اب بھی جواں معلوم ہوتی ہے

جفا و جور کے قصے ہیں اب بھی معتبر فارغؔ
وفا کی بات زیب داستاں معلوم ہوتی ہے


Leave a comment

+