یار نے اس دل ناچیز کو بہتر جانا
داغ کو پھول تو قطرے کو سمندر جانا
کٹ گئے دیکھتے ہی ہم تو تری چشم غضب
جنبش ابروئے خم دار کو خنجر جانا
سچ ہے یکساں ہے عدم اور وجود دنیا
ایسے ہونے کو نہ ہونے کے برابر جانا
آنکھ ہم بادہ کشوں سے نہ ملا اے جمشید
اپنے چلو کو ترے جام سے بڑھ کر جانا
کب زمانے میں ہے محتاج مکاں خانہ خراب
ہو گئی دل میں کسی کے جو جگہ گھر جانا
سمجھے جوہرؔ کو برا اس کی شکایت کیا ہے
وہی اچھا ہے جسے آپ نے بہتر جانا
RECITATIONS
فصیح اکمل
00:00/00:00
یار نے اس دل ناچیز کو بہتر جانا
فصیح اکمل
Leave a comment