شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

خالد اخلاق

  • غزل


کئی دنوں تک جب اپنے کمرے سے ہم نہ نکلے تو لوگ سمجھے


کئی دنوں تک جب اپنے کمرے سے ہم نہ نکلے تو لوگ سمجھے
کبھی کسی کو بہت ستاتے ہیں یہ اجالے تو لوگ سمجھے

بدل گئے جب کسی کی غربت میں آج رستے تو لوگ سمجھے
تھا جانا اسکول کام پر کیوں گئے وہ بچے تو لوگ سمجھے

ہدف پہ منہ زور آندھیوں کے فقط ہمارے چراغ کب تھے
بکھر گئے جب کسی گھروندے کے سارے تنکے تو لوگ سمجھے

کوئی نہ مانے کراہتیں جب بتا رہی تھیں کہ وقت کم ہے
جب ان کے کاندھوں پہ آخری ہم سفر کو نکلے تو لوگ سمجھے

جو وقت پر ہی نہ کام آئیں تو دوست کیا ہیں عزیز کیا ہیں
کسی دکاں پر نہیں چلے جب یہ کھوٹے سکے تو لوگ سمجھے

ہیں بھیڑ میں بھی ہم آج تنہا یہ اجنبیت کی ڈھونڈھ کیا ہے
اڑے دھوئیں میں نئے تعلق پرانے رشتے تو لوگ سمجھے

جسے سمجھتے ہیں شاعری ہم سفر مسلسل ہے خوشبوؤں کا
غزل کی شاخوں پہ خوب صورت جو شہر مہکے تو لوگ سمجھے

نہ دین پر ہیں عمل ہمارے نہ فکر کوئی سماج کی ہے
طرح طرح کے جب آج ہم پر عذاب اترے تو لوگ سمجھے

غم و خوشی بھی تو اک نشہ ہے سنبھلنا آساں نہیں ہے خالدؔ
بنا پئے بھی قدم ہمارے جو آج بہکے تو لوگ سمجھے


Leave a comment

+