شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

جگر بریلوی

  • غزل


تیری بے التفاتی کیا کوئی کم ہوتی جاتی ہے


تیری بے التفاتی کیا کوئی کم ہوتی جاتی ہے
طبیعت رفتہ رفتہ خوگر غم ہوتی جاتی ہے

ہزاروں چارہ گر ہیں اور غم بڑھتے ہی جاتے ہیں
جو صورت دیکھیے تصویر ماتم ہوتی جاتی ہے

تسلی آپ نے دی فرق ہے ہاں دل کی حالت میں
جو تھم تھم کر خلش ہوتی تھی پیہم ہوتی جاتی ہے

جو چنگاری تھی پہلے اب وہ بجلی بن گئی بڑھ کر
محبت عمر ڈھل جانے سے کیا کم ہوتی جاتی ہے

نظر کیا آپ کی بدلی مزاج زندگی بدلا
جو پہلے جاں فزا تھی مے وہی کم ہوتی جاتی ہے

کسی کا غم سموئے جاتا ہے رگ رگ میں رنگ ایسے
کہ اپنی زندگی حسن مجسم ہوتی جاتی ہے

نہ احساس غم جاناں نہ احساس غم دوراں
تو کیوں مانوس گریہ چشم پر نم ہوتی جاتی ہے

سب الٹی پڑ رہی ہیں شاید آزادی کی تدبیریں
کہ زنجیر محبت اور محکم ہوتی جاتی ہے

جگرؔ کیا تاب لا سکتا ہے کوئی دل میں زخموں کی
مگر کچھ غیب سے تدبیر مرہم ہوتی جاتی ہے


Leave a comment

+