شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

جاذب قریشی

  • غزل


ٹکرا رہی ہیں تیز ہوائیں چٹان سے


ٹکرا رہی ہیں تیز ہوائیں چٹان سے
باہر نہ جاؤ اپنے شکستہ مکان سے

وہ رات بھر چراغ کی لو دیکھتا رہا
امکاں تراشتا ہے جو اپنے گمان سے

عزم سفر ہے دھوپ کا صحرا ہے اور میں
دریا تو ساتھ چھوڑ گیا درمیان سے

وہ موسم خزاں کی تھکن ہی میں جل گئے
باہر کھلے جو پھول ترے سائبان سے

اک عمر ہو گئی ہے کہ ڈرتا رہا ہوں میں
روشن چراغ سے کبھی اندھے مکان سے

گہرے سمندروں میں ستارہ نہ تھا کوئی
ساحل کی شام مل نہ سکی بادبان سے

دیوار آئنے کی ہے شیشے کے بام و در
لیکن غبار اٹھتا ہے میرے مکان سے


Leave a comment

+