شام سے زوروں پہ طوفاں ہے بہت
اس کے لوٹ آنے کا امکاں ہے بہت
آئے گی نور مجسم بن کر
صورت سایہ گریزاں ہے بہت
کچھ بھی ہوں موج و ہوا کے تیور
جسم پروردۂ طوفاں ہے بہت
شاید آ پہنچے ہیں وہ اسپ سوار
شہر کا شہر ہراساں ہے بہت
جسم و جاں ورطۂ ظلمت ہی سہی
پیکر حرف درخشاں ہے بہت
زیر فرماں رہے اقلیم سخن
رہنے کو گوشۂ ویراں ہے بہت
Leave a comment