شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

فاروق شمیم

  • غزل


میں تو لمحات کی سازش کا نشانہ ٹھہرا


میں تو لمحات کی سازش کا نشانہ ٹھہرا
تو جو ٹھہرا تو ترے ساتھ زمانہ ٹھہرا

آنے والے کسی موسم سے ہمیں کیا لینا
دل ہی جب درد کی خوشبو کا خزانہ ٹھہرا

یاد ہے راکھ تلے ایک شرارے کی طرح
یہ جو بجھ جائے ہواؤں کا بہانہ ٹھہرا

جھوٹ سچ میں کوئی پہچان کرے بھی کیسے
جو حقیقت کا ہی معیار فسانہ ٹھہرا

عکس بکھرے ہوئے چہروں کے ہیں ہر سمت شمیمؔ
دل ہمارا بھی کوئی آئنہ خانہ ٹھہرا


Leave a comment

+