شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

فارغ بخاری

  • غزل


یادوں کا عجیب سلسلہ ہے


یادوں کا عجیب سلسلہ ہے
سویا ہوا درد جاگ اٹھا ہے

مٹ بھی چکے نقش پا مگر دل
مہکی ہوئی چاپ سن رہا ہے

جلتی ہوئی منزلوں کا راہی
اب اپنا ہی سایہ ڈھونڈھتا ہے

دیواریں کھڑی ہوئی ہیں لیکن
اندر سے مکان گر رہا ہے

پوچھے ہے چٹک کے غنچۂ زخم
اے اجنبی تیرا نام کیا ہے

سوچوں کے اتھاہ پانیوں میں
دل برف کا پھول بن گیا ہے

کس شعلہ بدن کی یاد آئی
دامان خیال جل اٹھا ہے

تخلیق میں خود چھپا ہوا ہے
فن کار بھی ًفطرتا خدا ہے

مرجھا کے ہر ایک زرد پتہ
آویزۂ گوش بن گیا ہے

سوچا ہے یہ میں نے پی کے اکثر
نشے میں یہ روشنی سی کیا ہے

شاخوں پہ پجارنیں سجی ہیں
ہر پھول چمن کا دیوتا ہے

صحرائے وفا میں میرے فن کی
خوشبو کا چراغ جل رہا ہے

پھر پائیں گے خاک سے نمو ہم
فارغؔ یہ اصول ارتقا ہے

اظہار کا جس کو حوصلہ ہے
وہ اپنی صدی کا دیوتا ہے

منصور سے کم نہیں ہے وہ بھی
جو اپنی زباں سے بولتا ہے

وہ پیڑ ہے زندگی کی عظمت
جو تند ہوا سے لڑ رہا ہے

قاتل کو دعائیں دو کہ فارغؔ
ہر زخم وفا غزل سرا ہے


Leave a comment

+