شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

دلشاد نسیم

  • غزل


میں اپنے خواب میں کچھ خاک میں ملاتی ہوں


میں اپنے خواب میں کچھ خاک میں ملاتی ہوں
نہ جانے خاک سے ایسا میں کیا اٹھاتی ہوں

ستارے بھر کے میں دامن میں جب بھی لاتی ہوں
تمہاری راہ میں پھر شوق سے بچھاتی ہوں

کہ پیاس دیکھ رہے ہیں یہ تشنہ لب میرے
میں اشک پیتی ہوں اور تشنگی مٹاتی ہوں

زمانے بھر سے وہ مجھ کو حسین لگتا ہے
زمانے بھر سے یہی بات میں چھپاتی ہوں

کبھی کبھی تو مجھے یاد تک نہیں رہتا
کہ چاند جلتا ہے شب میں یا دل جلاتی ہوں

میں لکھ رہی ہوں محبت پہ ایک نظم مگر
کبھی میں لکھتی ہوں اس کو کبھی مٹاتی ہوں

کرو یہ وعدہ کہ مجھ سے خفا نہیں ہونا
میں مانتی ہوں کہ میں بات کو بڑھاتی ہوں

فسانے لکھتی ہوں میں غم زدہ محبت کے
میں درد لکھتی ہوں اور درد ہی کماتی ہوں


Leave a comment

+