شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

چندر پرکاش شاد

  • غزل


کیسا وہ موسم تھا یہ تو سمجھ نہ پائے ہم


کیسا وہ موسم تھا یہ تو سمجھ نہ پائے ہم
شاخ سے جیسے پھل ٹوٹے کچھ یوں لہرائے ہم

برسوں سے اک آہٹ پر تھے کان لگائے ہم
آج اس موڑ پہ آپ ہی اپنے سامنے آئے ہم

ہم سے بچھڑ کر تو نے ہم کو کیسا دیا ہے شاپ
آئینے میں اپنی صورت دیکھ نہ پائے ہم

پیڑوں کا دھن لوٹ چکے ہیں لوٹنے والے لوگ
جسم پہ مل کر بیٹھے ہیں پیڑوں کے سائے ہم

سورج نگلیں چاندنی اگلیں شاید ممکن تھا
لیکن اپنی اس امید کے کام نہ آئے ہم

پربت ہو یا پیڑ گھنا ہو یا کوئی دیوار
تیری یاد لئے پھرتے ہیں سائے سائے ہم

گم ہوتی سی لگتی ہے اس گھر کی ہر اک چیز
آئے ہیں بازار سے کیسے تھکے تھکائے ہم

اب یہ تیری اپنی خوشی ہے جو تجھ کو راس آئے
ہم آئے تو ساتھ اپنے سب موسم لائے ہم

کون کسی کا ہوتا ہے یہ جانتے ہیں ہم بھی
پھر بھی سب سے ملتے ہیں یہ بات بھلائے ہم

آنکھ کھلی تو سناٹے کی کوکھ میں تھے بے سدھ
کوئی عجب آواز تھی جس پر اڑتے آئے ہم

دھرتی پر رکھ دیں تو دھرتی کے ٹکڑے ہو جائیں
صبر و غم کا پتھر ہیں سینے سے لگائے ہم

لمحہ لمحہ ٹوٹ رہا ہے کس کی ٹھوکر سے
دیکھتے دیکھتے اجڑ رہے ہیں بسے بسائے ہم

کس کا چہرہ ابھر رہا ہے دل کے مشرق سے
دشا دشا میں گھوم رہے ہیں ہاتھ بڑھائے ہم

گاہ کوئی چٹان جہاں پر وقت کی چاپ تھمے
گاہ بنے بہتا ہوا پل اور ہاتھ نہ آئے ہم


Leave a comment

+