شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ابھنندن پانڈے

  • غزل


مدعا جو ذہن سے اٹھا تھا وہ بے جا نہ تھا


مدعا جو ذہن سے اٹھا تھا وہ بے جا نہ تھا
دل بہت معصوم تھا دل عقل پروردہ نہ تھا

میں طلسم روشنی سے کھا رہا تھا کیوں فریب
دھوپ تھی تو تھا مرا اپنا کوئی سایہ نہ تھا

جنگلوں نے کر لیا تسلیم جانے کیوں گناہ
اے جہان نو ترا الزام تک پختہ نہ تھا

رقص کرتے کرتے اک دن خاک ہو جائیں گے ہم
رنج فرمائے گا اس درجہ جنوں سوچا نہ تھا

میں شروع عشق میں حل کرنے والا تھا اسے
مسئلہ روح و بدن کا اتنا پیچیدہ نہ تھا

جب یہاں رہنے کے سب اسباب یکجا کر لئے
تب کھلا مجھ پر کہ میں دنیا کا باشندہ نہ تھا

رفتہ رفتہ موت کی جانب بڑھا کیوں ہر کوئی
زندگی میں کیا برا تھا زندگی میں کیا نہ تھا


Leave a comment

+