شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

حسن بخت

  • غزل


کتنی مضطر تھی شب ستاروں میں


کتنی مضطر تھی شب ستاروں میں
اوس ڈھلتی رہی شراروں میں

پتے پتے کی روح جل اٹھی
کیسی سوزش تھی شاخساروں میں

آؤ جشن خزاں منائیں ہم
اجنبیت سی ہے بہاروں میں

چشم ماضی کے خشک آنسو ہیں
ذرے اڑتے ہیں جو غباروں میں

کیف غم سے جو ہو گئے واقف
تھے فسردہ وہ غمگساروں میں

ناؤ شاید کسی کی ڈوب گئی
ایک ہلچل سی ہے کناروں میں

پھول بن کر جو دل میں رہتی ہے
بختؔ کیسی خلش ہے خاروں میں


Leave a comment

+