شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

خالد سہیل

  • غزل


تجھ سے سب کچھ کہہ کے بھی کچھ ان کہی رہ جائے گی


تجھ سے سب کچھ کہہ کے بھی کچھ ان کہی رہ جائے گی
گفتگو اتنی بڑھے گی کچھ کمی رہ جائے گی

اپنے لفظوں کے سبھی تحفے تجھے دینے کے بعد
آخری سوغات میری خامشی رہ جائے گی

کشتیاں مضبوط سب بہہ جائیں گی سیلاب میں
کاغذی اک ناؤ میری ذات کی رہ جائے گی

حرص کے طوفان میں ڈھہ جائیں گے سارے محل
شہر میں درویش کی اک جھونپڑی رہ جائے گی

چھوڑ کر مجھ کو چلے جائیں گے سارے آشنا
صبح دم بس ایک لڑکی اجنبی رہ جائے گی

رات بھر جلتا رہا ہوں میں سہیلؔ اس آس میں
میں تو بجھ جاؤں گا لیکن روشنی رہ جائے گی


Leave a comment

+