شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

اقبال انجم

  • غزل


کھلا ہر منظر فکر و نظر آہستہ آہستہ


کھلا ہر منظر فکر و نظر آہستہ آہستہ
چھٹا آخر غبار رہ گزر آہستہ آہستہ

وہ اک بے نام سا کوئی جزیرہ بحر امکاں میں
پرندوں سے ملی ہم کو خبر آہستہ آہستہ

نظر میں چشم تر میں یا کبھی آغوش دریا میں
گہر تکمیل ہوتا ہے مگر آہستہ آہستہ

نہ جانے تشنگی تھی یا کوئی احساس محرومی
جلے اک آگ میں ہم عمر بھر آہستہ آہستہ

وہ کچھ بھولی ہوئی یادیں وہ دھندلی چند تصویریں
صدائیں دیتی ہیں اب بھی مگر آہستہ آہستہ

ہوئے جاتے ہیں خوشیوں کے مناظر کم سے کم انجمؔ
بچھڑتے جا رہے ہیں ہم سفر آہستہ آہستہ


Leave a comment

+