تیرا قول و قرار باقی ہے
اور مرا انتظار باقی ہے
اب بھی چاہو تو تم پلٹ آؤ
اب بھی تھوڑی بہار باقی ہے
چاند کھڑکی پہ جب آ کے پوچھ رہا
اور کتنا سنگار باقی ہے
ایسا ویرانا کیسے چھوڑیں ہم
اب بھی اجڑا دیار باقی ہے
دل دیا جاں بھی دی مگر پھر بھی
اور تھوڑا ادھار باقی ہے
نبض مدھم ہے سانس ہے ڈوبی
پھر بھی اک اعتبار باقی ہے
Leave a comment