شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

گلشن کھنہ

  • غزل


یارب یہ کیسا آج کا انسان ہو گیا


یارب یہ کیسا آج کا انسان ہو گیا
تخلیق کر کے تو بھی پشیمان ہو گیا

موسم بہار کا تھا خزاں جلد آ گئی
ہنستا ہوا چمن مرا ویران ہو گیا

لوٹا ہے جس نے شہر کے صبر و قرار کو
وہ شخص میرے شہر کا پردھان ہو گیا

ایسے نئے چلن کی چلیں آندھیاں یہاں
انسان اپنی ذات میں حیوان ہو گیا

چاہا تھا میں نے دل سے کبھی تجھ کو ٹوٹ کر
وہ حادثہ حیات کا عنوان ہو گیا

تھیں زندگی کی راہ میں دشواریاں بہت
مرنا کسی کے عشق میں آسان ہو گیا

اتنا حسین ہے مرے گلشنؔ کا بانکپن
ہر گل مری نگاہ میں ذیشان ہو گیا


Leave a comment

+