شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ثمینہ سید

  • غزل


اس ریاضت کا مری جان صلہ کچھ بھی نہیں


اس ریاضت کا مری جان صلہ کچھ بھی نہیں
عشق کا کھیل شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں

ضبط کے کونسے زینے پہ میں آ پہنچی ہوں
ہاتھ اٹھے ہیں مگر حرف دعا کچھ بھی نہیں

اب تو خورشید بکف ہم کو ابھرنا ہوگا
ان اندھیروں میں فقط ایک دیا کچھ بھی نہیں

ایسے لگتا تھا کہ دنیا ہی اجڑ جائے گی
خوف تھا چاروں طرف اور ہوا کچھ بھی نہیں

خامشی خود ہے تکلم کا وسیلہ سیدؔ
دشت حیرت ہے یہاں صوت و صدا کچھ بھی نہیں


Leave a comment

+