شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

خرم آفاق

  • غزل


طوفان کی امید تھی آندھی نہیں آئی


طوفان کی امید تھی آندھی نہیں آئی
وہ آپ تو کیا اس کی خبر بھی نہیں آئی

کچھ آنکھوں میں تو ہو گیا آباد وہ چہرہ
کچھ بستیوں میں آج بھی بجلی نہیں آئی

ہر روز پلٹ آتے تھے مہمان کسی کے
ہر روز یہ کہتے تھے کہ گاڑی نہیں آئی

وہ آگ بجھی تو ہمیں موسم نے جھنجھوڑا
ورنہ یہی لگتا تھا کہ سردی نہیں آئی

شاید وہ محبت کے لئے ٹھیک نہیں تھا
شاید یہ انگوٹھی اسے پوری نہیں آئی


Leave a comment

+