شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ثاقب لکھنوی

  • غزل


ملتا جو کوئی ٹکڑا اس چرخ زبرجد میں


ملتا جو کوئی ٹکڑا اس چرخ زبرجد میں
پیوند لگا دیتا میں نفس مجرد میں

بیداری فرقت میں تھا رمز قیامت کا
جاگا ہوں کہ نیند آئے تاریکئ مرقد میں

اس دفتر ہستی میں تعلیم بہت کم ہے
دو حرف نظر آئے دیباچۂ ابجد میں

گو خاک کا پتلا ہوں لیکن کوئی کیا سمجھے
میں بھی کوئی شے ہوں جو گردوں ہے مری کد میں

ہے ضبط کی فرمائش اس دل سے بہت بے جا
یہ قلزم لا ساحل کس طرح رہے حد میں

پہلو میں نہیں دل تو دل سوز ہی آ جاتا
اک شمع تو جل جاتی تاریکی مرقد میں

نالوں سے یہ کہتا ہوں ہمت سے نہ دل ہاریں
تاروں نے جگہ کر لی اس لوح زمرد میں


Leave a comment

+