شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ناصر کاظمی

  • غزل


کچھ یادگار شہر ستم گر ہی لے چلیں


کچھ یادگار شہر ستم گر ہی لے چلیں
آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں

یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر
سر پر خیال یار کی چادر ہی لے چلیں

رنج سفر کی کوئی نشانی تو پاس ہو
تھوڑی سی خاک کوچۂ دلبر ہی لے چلیں

یہ کہہ کے چھیڑتی ہے ہمیں دل گرفتگی
گھبرا گئے ہیں آپ تو باہر ہی لے چلیں

اس شہر بے چراغ میں جائے گی تو کہاں
آ اے شب فراق تجھے گھر ہی لے چلیں

RECITATIONS نعمان شوق



00:00/00:00 کچھ یادگار شہر ستم گر ہی لے چلیں نعمان شوق

Leave a comment

+