شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

یعقوب یاور

  • غزل


الاماں کہ سورج ہے میری جان کے پیچھے


الاماں کہ سورج ہے میری جان کے پیچھے
اور سانپ بیٹھا ہے سائبان کے پیچھے

خوش گوار موسم پر کامیابیاں مبنی
من چلا سمندر ہے بادبان کے پیچھے

ہم سے رہ نوردوں کو دشت راس کیا آتا
آخرش پلٹنا تھا خاک چھان کے پیچھے

چیخ المدد شاید دست غیب آ جائے
ناولوں کے لشکر ہیں داستان کے پیچھے

تیر کھا کے پہلو میں میں ادھر تڑپتا تھا
اور میری پرچھائیں تھی کمان کے پیچھے

مضمحل نہ ہو جائے قوتوں کی تابانی
کوئی چھپ کے بیٹھا ہے آسمان کے پیچھے

ناقد‌ و ہلاکو میں ربط خاص ہے یاورؔ
کچھ قلم نما خنجر ہیں زبان کے پیچھے


Leave a comment

+