محب عارفی
- غزل
- خیال ذہن شکن سے زبان بھر آ جائے
- نقاد اپنے آپ کا بے لاگ ایسا کون ہے
- عمر بھر جس پہ تکیہ رہا کچھ نہ تھا دل نہیں مانتا
- اب یہاں کوئی نہیں پہلے یہاں تھا کوئی
- اپنی آگ میں بھنتی جائے بنتی جائے کفن اپنا
- اندر تو خیالوں کے ہو آئے خیال اپنا
- کچھ نہ ہونے کی حقیقت نہیں جانی یعنی
- اک لہر سی دیکھی گئی پائے نہ گئے ہم
- اس کو پا جاؤں کبھی ایسا مقدر ہے کہاں
- محرومیوں کا اک سبب جوش طلب خود بھی تو ہے