فرخ جعفری
- غزل
- روشنی سے کس طرح پردا کریں گے
- کسی بہانے بھی دل سے الم نہیں جاتا
- گو اس سفر میں تھک کے بدن چور ہو گیا
- کٹی پہاڑ سی شب انتظار کرتے ہوئے
- کوئی موسم ہو کچھ بھی ہو سفر کرنا ہی پڑتا ہے
- راہ گم کردہ سر منزل بھٹک کر آ گیا
- اب کے جنوں ہوا تو گریباں کو پھاڑ کر
- اسے سمجھا بجھا کے ہم تو ہارے
- تھا عبث خوف کہ آسیب گماں میں ہی تھا
- سوچتے رہنے سے کیا قسمت کا لکھا جائے گا