شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

زویا شیخ

  • غزل


کبھی خواہش جو اس دل کی پرانی چیخ پڑتی ہے


کبھی خواہش جو اس دل کی پرانی چیخ پڑتی ہے
تو پھر آنکھوں میں اک ڈوری گلابی چیخ پڑتی ہے

لگا کر زخم پر پہرے سلا کے دل کے سارے غم
میں جب بھی ہنسنا چاہوں تو اداسی چیخ پڑتی ہے

مری الھڑ جواں زلفوں کو ابیض دیکھ کر لوگوں
بزرگی مسکراتی ہے جوانی چیخ پڑتی ہے

رقم جب بھی میں اپنا درد کرتی ہوں قلم سے تو
ورق ماتم مناتے ہیں سیاہی چیخ پڑتی ہے

تخلص اچھی لڑکی کا مجھے جب زویاؔ ملتا ہے
مرے اندر دبی پھر ہر خرابی چیخ پڑتی ہے


Leave a comment

+