شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

زبیر امروہوی

  • غزل


ہم جو گر کر سنبھل جائیں گے


ہم جو گر کر سنبھل جائیں گے
راستے خود بدل جائیں گے

قہقہوں کو ذرا روکئے
ورنہ آنسو مچل جائیں گے

دوستوں کے ٹھکانے بہت
آستینوں میں پل جائیں گے

نور ہم سے طلب تو کرو
ہم چراغوں میں ڈھل جائیں گے

آئینوں سے نہ روٹھا کرو
ورنہ چہرے بدل جائیں گے

دیکھیے مجھ کو مت دیکھیے
لوگ دیکھیں گے جل جائیں گے

کیا خبر تھی کہ اس دور میں
کھوٹے سکے بھی چل جائیں گے

غم تو غم ہی رہیں گے زبیرؔ
غم کے عنواں بدل جائیں گے


Leave a comment

+