شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

یاسمین حسینی زیدی نکہت

  • غزل


خواب پلکوں پہ مری آ کے مچل جاتے ہیں


خواب پلکوں پہ مری آ کے مچل جاتے ہیں
یا کبھی بن کے گہر آنکھ سے ڈھل جاتے ہیں

مجھ کو گوشہ کوئی مانوس سا جو لگتا ہے
لوگ دیوار پہ تصویر بدل جاتے ہیں

کل وہ عالم تھا کہ اک جان تھی دو قالب تھے
آج یہ ہے کہ وہ کترا کے نکل جاتے ہیں

ہم کو طوفان حوادث کا کوئی خوف نہیں
یہ جو آتے ہیں تو کچھ ہم بھی بہل جاتے ہیں

اپنے آنگن میں وہ سورج کے تمنائی ہیں
جو دیا دیکھ کے ہمسائے کا جل جاتے ہیں

میں سخنور بھی نہیں فن کا سلیقہ بھی نہیں
زخم ہیں دل کے جو نغمات میں ڈھل جاتے ہیں


Leave a comment

+