شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

وجد چغتائی

  • غزل


چاہتوں کی جو دل کو عادت ہے


چاہتوں کی جو دل کو عادت ہے
یہ بھی انساں کی اک ضرورت ہے

ہم فرشتے کہاں سے بن جائیں
عشق انسان کی جبلت ہے

کون آیا ہے کون آئے گا
بے سبب جاگنے کی عادت ہے

کیا ملیں گے جو کھو گئے اک بار
بھیڑ میں ڈھونڈھنا قیامت ہے

ان کے انداز دشمنی میں بھی
دوستی کی عجب شباہت ہے

میرے اندر جو میرا دشمن ہے
ہو بہ ہو وہ مری ہی صورت ہے

ان کے وعدوں سے یہ ہوا معلوم
جھوٹ سب سے بڑی صداقت ہے

اس قدر دور کیوں نکل آئے
اب تو گھر لوٹنا قیامت ہے

ان کے لہجے میں ان کی باتوں میں
چاندنی رات کی صباحت ہے

یہ کہانی بھی خوب ہے یارو
ہر جگہ ایک سی عبارت ہے

وجدؔ یادوں میں ان کی غم رہنا
راحتوں کی ہزار راحت ہے

کس لئے وجدؔ دل گرفتہ ہو
دشمنی دوستوں کی عادت ہے


Leave a comment

+