شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

واصف یار

  • غزل


بس وہی وہ دکھائی دیتے ہیں


بس وہی وہ دکھائی دیتے ہیں
ایک کے دو دکھائی دیتے ہیں

جتنے ہرجائی ہم نے دیکھے ہیں
اتنے کس کو دکھائی دیتے ہیں

وہ یہاں ہیں نہیں پتہ ہے ہمیں
پھر بھی ہم کو دکھائی دیتے ہیں

دل کو بہلانا ہی تو مقصد ہے
فرض کر لو دکھائی دیتے ہیں

جیسے ہم تم کو صاف دیکھتے ہیں
ویسے تم کو دکھائی دیتے ہیں

تاب نظارہ باقی ہے کہ گئی
اور دیکھو دکھائی دیتے ہیں

جو زمانے کو دیکھتے بھی نہیں
وہ انہیں کو دکھائی دیتے ہیں

شعر پڑھتے ہیں آپ جب واصفؔ
داستاں گو دکھائی دیتے ہیں


Leave a comment

+