شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ثبین سیف

  • غزل


عمر بھر بوجھ اٹھایا تو نہیں جا سکتا


عمر بھر بوجھ اٹھایا تو نہیں جا سکتا
ہر تعلق کو نبھایا تو نہیں جا سکتا

آپ اس بار بھی دیوار میں چنوا دیں مجھے
اب کے بھی سر یہ جھکایا تو نہیں جا سکتا

روز مرنے کا ہنر جس نے سکھایا ہے مجھے
اس کا احسان بھلایا تو نہیں جا سکتا

چشم بینا ہے مگر عقل سے نا بینا ہیں
آئنہ ان کو دکھایا تو نہیں جا سکتا

تم نے اک عمر مرے دل پہ حکومت کی ہے
تم کو پل بھر میں بھلایا تو نہیں جا سکتا

جن کو الفاظ سے ڈسنے کا ہنر آتا ہے
ہاتھ اب ان سے ملایا تو نہیں جا سکتا

جس قدر سنگ زنی چاہیے کر لیں مجھ پر
سنگ زادی کو رلایا تو نہیں جا سکتا

ہوں مکیں جن میں کئی سال سے زندہ لاشیں
ان مکانوں کو سجایا تو نہیں جا سکتا

جس کی خاموشی میں آسیب سکوں کرتے ہوں
ایسا ویرانہ بسایا تو نہیں جا سکتا

تو بت عشق نہیں تو تو خدا ہے میرا
اب تجھے ہاتھ لگایا تو نہیں جا سکتا


Leave a comment

+